مریخ کو طویل عرصے سے ’’سرخ سیارہ‘‘ کہا جاتا ہے، اور اس کی اس مشہور و معروف زنگ آلود رنگت کا ممکنہ ذریعہ اب سائنسدانوں نے دریافت کر لیا ہے۔ مریخ کا سرخ رنگ اس سیارے کی سطح پر موجود آئرن آکسائیڈ (زنگ) کی بڑی مقدار کی وجہ سے ہے، جو خاص طور پر اس کی مٹی میں پائی جاتی ہے۔ مریخ پر کئی دہائیوں کے دوران متعدد خلائی مشن روانہ ہوئے ہیں، اور ان مشنوں سے حاصل ہونے والے ڈیٹا نے ہمیں اس رنگت کے پس منظر کو بہتر طور پر سمجھنے میں مدد فراہم کی ہے۔
مریخ کے مختلف خلائی جہازوں اور لینڈرز نے اس سیارے کی سطح پر تحقیقات کیں، اور ان سے حاصل ہونے والے ڈیٹا نے یہ واضح کیا کہ مریخ کی سرخ رنگت اس کی مٹی میں موجود آئرن کی معدنیات سے آئی ہے۔ ان معدنیات کی موجودگی کی بنیاد پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ مریخ پر آئرن آکسائیڈ کی ایک بڑی مقدار موجود ہے، جو سیارے کی سطح کو سرخ رنگ دیتی ہے۔
سائنسدانوں کے مطابق، کائناتی تاریخ کے کسی مرحلے پر مریخ کی چٹانوں میں موجود آئرن نے پانی یا پانی اور ہوا میں موجود آکسیجن کے ساتھ ایک کیمیائی ردعمل کا آغاز کیا، جس کے نتیجے میں آئرن آکسائیڈ کی تشکیل ہوئی۔ آئرن آکسائیڈ کی تشکیل کے بعد، یہ دھول کی شکل میں تبدیل ہوگیا اور وقت کے ساتھ سیارے کی سطح پر پھیل گیا۔
پہلے کیے گئے تجزیوں میں، سائنسدانوں نے مریخ پر پانی کے کسی بھی واضح ثبوت کا سراغ نہیں لگایا تھا، جس کی وجہ سے محققین کا خیال تھا کہ مریخ کی سرخ رنگت ہیمیٹائٹ (ایک خشک معدنیات) کی وجہ سے ہے۔ لیکن اب کے تجزیوں نے یہ ظاہر کیا ہے کہ ممکنہ طور پر مریخ پر ایک وقت ایسا بھی آیا تھا جب وہاں پانی موجود تھا، جو آئرن آکسائیڈ کے پیدا ہونے کا ایک اہم جزو بن سکتا تھا۔
اس نئے دریافت نے مریخ کی ماضی کی حالت کے بارے میں اہم سوالات اٹھائے ہیں، خاص طور پر یہ کہ کیا مریخ پر کبھی پانی تھا، اور کیا اس پانی کی موجودگی نے مریخ کی سطح پر آئرن آکسائیڈ کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا؟ یہ دریافت اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ مریخ کی ماضی میں ایک زیادہ نمی والی سطح ہو سکتی تھی، جو کہ اس وقت کے ماحول میں ہونے والی کیمیائی تبدیلیوں کے حوالے سے مزید تحقیق کی ضرورت کو ظاہر کرتی ہے۔
مریخ پر آئرن آکسائیڈ کی موجودگی نہ صرف اس سیارے کی سرخ رنگت کی وضاحت کرتی ہے بلکہ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ مریخ پر قدیم دور میں جیو کیمیائی حالات زمین سے ملتے جلتے ہو سکتے تھے۔ اس دریافت نے اس بات کی طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ مریخ پر زندگی کے آثار تلاش کرنے کی کوششیں اب تک کے سب سے اہم اقدامات میں سے ایک ہو سکتی ہیں، کیونکہ پانی کی موجودگی کسی بھی سیارے پر زندگی کی ابتدائی علامات کے طور پر سمجھی جاتی ہے۔
مریخ کی ماضی کی جیو کیمیائی حالت کو بہتر طور پر سمجھنے سے ہمیں اس بات کا پتا چل سکتا ہے کہ کیا مریخ پر کبھی جاندار موجود تھے، اور اس سے ہمیں ہمارے نظام شمسی میں دیگر سیاروں کے بارے میں بھی اہم معلومات حاصل ہو سکتی ہیں۔