مشہور ریاضی دان اور طبعیات دان سر آئزک نیوٹن کا ایک خط حال ہی میں منظر عام پر آیا ہے، جس میں انہوں نے دنیا کے اختتام کے بارے میں ایک حیران کن پیش گوئی کی تھی۔ یہ خط 1704 میں لکھا گیا تھا، اور اس میں نیوٹن نے ریاضیاتی کیلکولیشنز کی مدد سے دنیا کے اختتام کا تخمینہ 2060 عیسوی لگایا تھا۔
نیوٹن کی یہ پیش گوئی خاص طور پر ان کے مذہبی عقائد سے جڑی ہوئی تھی، کیونکہ وہ ایک مذہبی شخص تھے اور ان کا ایمان پروٹیسٹنٹ نقطہ نظر پر مبنی تھا۔ نیوٹن نے اپنے ریاضیاتی تجزیے کو انجیل مقدس کے متن کے ساتھ جوڑا اور اس میں بیان کی گئی تاریخوں کا حساب لگایا تاکہ قیامت کے وقوع کی تاریخ متعین کی جا سکے۔ نیوٹن نے اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے انجیل میں مذکور اوقات اور پیش گوئیاں استعمال کیں، جس کے نتیجے میں انہوں نے 2060 کو دنیا کے اختتام کی تاریخ کے طور پر پیش کیا۔
نیوٹن نے اپنے تجزیے میں ایک اہم تاریخ کو شامل کیا، جو 800 عیسوی کی تھی۔ انہوں نے اس سال کو مقدس رومی سلطنت کی بنیاد کا آغاز قرار دیا اور کلیسا کے باقاعدہ ترک ہونے کے طور پر اس کا حساب کیا۔ ان کے مطابق، دنیا اس بنیاد کے قیام کے 1260 برس بعد تک باقی رہے گی، جو کہ 2060 میں مکمل ہوگا۔ یہ حساب کتاب نیوٹن نے اپنی مذہبی تفہیم اور ریاضی کے جوڑ سے نکالا تھا۔
اس خط میں نیوٹن نے دنیا کے اختتام کے بارے میں اپنی تفصیل سے پیش گوئی کی تھی، لیکن اس میں یہ بھی واضح کیا کہ ان کی پیش گوئی ایک ریاضیاتی حساب کتاب پر مبنی ہے اور وہ انجیل کے روحانی مفہوم کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ نیوٹن کی یہ پیش گوئی اس وقت کے مذہبی اور فلسفیانہ نظریات کا ایک اہم حصہ بن گئی، اور ان کے تجزیے نے دنیا کے اختتام کے بارے میں کئی سوالات اٹھائے ہیں۔
نیوٹن کی یہ پیش گوئی ایک لحاظ سے اس دور کے مذہبی عقائد، فلسفے اور سائنس کے امتزاج کا نمونہ تھی۔ ان کے مطابق دنیا کا اختتام ایک قدرتی عمل کے طور پر نہیں، بلکہ مذہبی تاریخ کے ایک حصے کے طور پر ہو گا، جو کہ انجیل مقدس میں بیان کی گئی ہے۔ نیوٹن نے اس دوران سائنس اور مذہب کے درمیان توازن قائم کرنے کی کوشش کی، جس کا اثر ان کی تحقیق اور پیش گوئیوں پر نمایاں طور پر دکھائی دیتا ہے۔
اگرچہ نیوٹن کی پیش گوئی کو سائنسی نقطہ نظر سے اب تک غلط سمجھا گیا ہے، مگر ان کے اس خط نے وقت کے ساتھ ایک مختلف نظریے کی صورت اختیار کر لی ہے، اور آج بھی اس پر بحث جاری ہے کہ آیا دنیا کا اختتام واقعی 2060 میں ہوگا یا نہیں۔ اس پیش گوئی کو نہ صرف مذہبی افراد، بلکہ سائنسی ماہرین بھی مختلف زاویوں سے دیکھتے ہیں اور اس کا تجزیہ کرتے ہیں کہ آیا اس میں کوئی حقیقت ہے یا یہ صرف ایک قدیم عقیدہ تھا۔