جبل نور القرآن میں قرآن مجید کے قدیم نسخوں کی چوری ایک سنگین واقعہ ہے، جو نہ صرف مقامی بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی تشویش کا باعث بن چکا ہے۔ اس مقام پر قرآن مجید کے قدیم نسخوں کی حفاظت اور ان کا محفوظ رکھنا ایک طویل عرصے سے جاری عمل تھا، جس سے لوگوں کو تاریخ و ثقافت کا ایک اہم حصہ دیکھنے کا موقع ملتا تھا۔ ان نسخوں میں 500 سال سے زائد قدیم ہاتھ سے تحریر کردہ نسخے شامل تھے، جو نہ صرف مذہبی اہمیت رکھتے ہیں بلکہ ثقافتی ورثے کا حصہ بھی ہیں۔
چوری کا یہ واقعہ جبل نور القرآن کے لیے ایک بڑا دھچکا ہے، خاص طور پر جب اس سے قبل بھی ایک نسخے کی چوری کا واقعہ پیش آچکا تھا۔ ان نسخوں کی چوری کے بعد علاقے کی انتظامیہ اور پولیس دونوں اس معاملے کی تحقیقات کر رہی ہیں، اور امید ہے کہ جلد ہی مجرموں تک پہنچا جا سکے گا۔
یہ واقعہ اس بات کو اجاگر کرتا ہے کہ مذہبی اور ثقافتی ورثے کی حفاظت کتنی ضروری ہے، خاص طور پر ان مقامات پر جہاں تاریخ کے اہم نسخے محفوظ کیے جاتے ہیں۔ اس چوری نے نہ صرف کوئٹہ بلکہ پورے پاکستان کو ہلا کر رکھ دیا ہے، اور یہ سوالات اٹھا رہا ہے کہ ہمیں اپنے ثقافتی اور مذہبی ورثے کی حفاظت کے لیے مزید کیا اقدامات کرنے ہوں گے۔
آپ کے خیال میں اس طرح کے ورثے کی حفاظت کے لیے کیا مزید اقدامات کیے جا سکتے ہیں تاکہ مستقبل میں اس قسم کے واقعات سے بچا جا سکے؟