سندھی رسم الخط، جو وادی سندھ کی قدیم تہذیب سے تعلق رکھتا ہے، ایک طویل عرصے سے ماہرین کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ اس رسم الخط کو سمجھنے کی کوششیں گزشتہ ایک صدی سے جاری ہیں، مگر ابھی تک اس کے راز حل نہیں ہو پائے ہیں۔ راجیش پی این راؤ جیسے محققین کا کہنا ہے کہ اس رسم الخط کے بارے میں دعوے کرنے والے افراد کی تعداد بڑھ رہی ہے، جن میں انجینئرز، آئی ٹی اہلکار، ریٹائرڈ افراد اور ٹیکس افسران شامل ہیں، اور یہ سب اپنے دعووں کو ’کیس بند‘ کرنے کے طور پر پیش کرتے ہیں۔
سندھ یا ہڑپہ تہذیب کے اشاروں اور علامتوں پر مبنی اس رسم الخط کی دریافت 1900 کی دہائی میں ہوئی تھی، اور اس کے بعد سے اس پر تحقیق کا سلسلہ جاری ہے۔ اس رسم الخط کی تحریریں چھوٹی چھوٹی اشیاء جیسے مہروں، مٹی کے برتنوں اور ٹیبلٹس پر پائی گئی ہیں، اور ان تحریروں کا مواد ابھی تک غیر واضح ہے۔ اس کی زبان، حکمرانی اور عقائد کے بارے میں کوئی خاص معلومات دستیاب نہیں ہیں، کیونکہ اس رسم الخط کی تفہیم ابھی تک ممکن نہیں ہو سکی ہے۔
سندھی رسم الخط کو سمجھنے میں سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ اس کی تحریریں اکثر چھوٹے اشاروں اور علامتوں پر مبنی ہوتی ہیں، جن کا مواد کافی محدود ہوتا ہے۔ ان تحریروں میں تقریباً پانچ اشاروں یا علامتوں کی اوسط لمبائی ہوتی ہے، اور ان میں سے بیشتر مہروں پر پائی جانے والی تحریریں ہیں۔ اس کے علاوہ، کوئی ایسا فن پارہ موجود نہیں جو دو زبانوں میں ہو، جیسے کہ روزیٹا سٹون جو مصری ہائروگلیف کو ڈی کوڈ کرنے میں مددگار ثابت ہوا تھا۔
حال ہی میں، کمپیوٹر سائنس اور مشین لرننگ کے طریقوں کا استعمال کرتے ہوئے محققین نے سندھی رسم الخط کے اشاروں کی تفہیم میں پیشرفت کی ہے۔ نشا یادو اور دیگر محققین نے شماریاتی اور کمپیوٹیشنل طریقوں کا استعمال کیا ہے تاکہ ان تحریروں کے نمونوں اور ڈھانچوں کی شناخت کی جا سکے۔ ان کے کام سے کچھ دلچسپ نمونے سامنے آئے ہیں، لیکن ابھی تک یہ واضح نہیں ہو سکا کہ یہ اشارے مکمل الفاظ ہیں، یا صرف کسی لفظ یا جملے کا حصہ ہیں۔
اس رسم الخط کی سمجھ کے لئے مزید تحقیق کی ضرورت ہے، اور اس کے مکمل ترجمے تک یہ قدیم راز ابھی تک حل نہیں ہو سکے ہیں۔