پاکستان میں منشیات کے بڑھتے ہوئے استعمال، خاص طور پر آئس (میتھامفیٹامین) جیسے انتہائی خطرناک نشے کی گہرائی میں جاکر اس کے اثرات اور اس سے نمٹنے کے لیے کی جانے والی کوششوں کی کہانیاں افسوسناک اور چونکا دینے والی ہیں۔ آئس کا نشہ ذہنی، جسمانی اور سماجی طور پر انسان کو تباہی کی طرف دھکیلتا ہے، اور اس کی تباہ کن نوعیت کی مثالیں جو اس رپورٹ میں دی گئی ہیں، یہ واضح کرتی ہیں کہ یہ نشہ نہ صرف فرد بلکہ پورے معاشرتی نظام کے لیے خطرہ بن چکا ہے۔
ڈاکٹر جمیل کی کہانی، جو پہلے بھی علاج کرا چکے ہیں لیکن دوبارہ آئس کے نشے کا شکار ہوگئے، یہ بتاتی ہے کہ نشے کی لت چھڑانے کی کوششیں اس قدر پیچیدہ ہو سکتی ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ ذہنی دباؤ اور خود کو بہتر بنانے کے لیے غلط راستے اختیار کرنا ہوتا ہے۔ نشے کے عادی افراد، خاص طور پر آئس کے استعمال کرنے والے، ایک انتہائی پیچیدہ ذہنی کیفیت میں مبتلا ہوتے ہیں، جہاں وہ اپنے خیالات میں گم ہو کر حقیقت سے دور ہو جاتے ہیں، اور ان کے جذبات و احساسات پوری طرح سے مفلوج ہو جاتے ہیں۔
پشاور اور خیبر پختونخوا میں منشیات کے بڑھتے ہوئے استعمال کے تناظر میں، سرکاری حکام اور بحالی مراکز کی جانب سے علاج اور بحالی کی کوششیں اہم ہیں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ معاشرتی آگاہی اور روک تھام کے اقدامات کی ضرورت بھی ہے تاکہ اس لت کا خاتمہ ہو سکے۔ حکومتی سطح پر اس مسئلے کی سنجیدگی کو سمجھتے ہوئے کنٹرول رومز اور مہمات کا آغاز کیا گیا ہے، لیکن اس کا اثر تب ہی ہو سکتا ہے جب ان اقدامات کو ایک جامع اور موثر طریقے سے نافذ کیا جائے۔
کیا آپ کو لگتا ہے کہ حکومتی سطح پر اس مسئلے کا بہتر حل تلاش کیا جا رہا ہے یا مزید اقدامات کی ضرورت ہے؟ اور اس مسئلے کے لیے معاشرتی سطح پر کیا مزید کوششیں کی جا سکتی ہیں؟