محسن فخری زادہ کی موت ایک انتہائی متنازع اور سنسنی خیز واقعہ تھا جس نے عالمی سطح پر توجہ حاصل کی۔ 27 نومبر 2020 کو موساد کی خفیہ کارروائی کے دوران، محسن فخری زادہ کو تہران سے 40 میل مشرق میں ایک سیاہ رنگ کی نسان ٹیانا کار میں فائرنگ کا نشانہ بنایا گیا۔ یہ قتل موساد کی ایک طویل اور پیچیدہ 8 ماہ کی خفیہ تحقیقاتی کارروائی کا نتیجہ تھا، جس کے دوران ریموٹ کنٹرول گن سے 13 راؤنڈ فائر کیے گئے۔
محسن فخری زادہ ایران کے جوہری پروگرام کے سربراہ تھے اور ان کا کردار انتہائی رازدارانہ تھا۔ ان کے بارے میں زیادہ معلومات عوام تک نہیں پہنچ سکیں، اور ان کی تصاویر بھی صرف الگ الگ زاویوں سے دستیاب تھیں۔ اس راز داری کے باوجود، موساد نے انہیں ایک ایسے وقت میں نشانہ بنایا جب امریکی انتخابات کے نتائج کے بعد عالمی سطح پر سیاسی درجہ حرارت بڑھ رہا تھا۔
قتل کے بعد، فخری زادہ کو فوری طور پر ہسپتال لے جایا گیا لیکن وہ دم توڑ گئے۔ ایران نے انہیں ’شہید‘ قرار دیتے ہوئے ایک باضابطہ پریس ریلیز جاری کی اور ان کے تابوت کو ایران کے مقدس مقامات پر لے جایا گیا۔ وزیر دفاع نے ان کے تابوت کو چومتے ہوئے اعلان کیا کہ اس کا بدلہ لیا جائے گا۔
فخری زادہ کو ایرانی انقلاب کی حفاظت کے لیے بعد از مرگ ’آرڈر آف نصر‘ سے نوازا گیا، جو ان کے ملک کے لیے ان کی خدمات کی اہمیت کو ظاہر کرتا ہے۔ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے ان کی نماز جنازہ میں شرکت نہیں کی لیکن ان کے نمائندے نے تعزیتی پیغام پڑھا۔
یہ واقعہ نہ صرف ایران اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی کی عکاسی کرتا ہے بلکہ عالمی سیاست میں بھی اس کا ایک گہرا اثر ہوا ہے۔