امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیوں نے عالمی تجارتی منظرنامے کو نیا موڑ دیا ہے، جس کے نتیجے میں ایک نئی تجارتی جنگ کا آغاز ہو چکا ہے۔ ٹرمپ کی جانب سے مختلف ممالک پر ٹیرف عائد کرنے کے بعد، کینیڈا، میکسیکو اور چین جیسے بڑے تجارتی شراکت داروں نے جوابی اقدامات کا اعلان کیا ہے، جس میں کینیڈا نے امریکی درآمدات پر 25% ٹیکس عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ چین نے بھی عالمی تجارتی تنظیم (WTO) میں شکایت دائر کرنے کا عندیہ دیا ہے۔
ٹرمپ کے اقدامات سے عالمی معیشت میں عدم استحکام کا خطرہ پیدا ہو سکتا ہے، اور اس سے امریکی صارفین پر مہنگائی کا اثر پڑے گا۔ اس کے ساتھ ہی ٹرمپ کی ’’امریکا پہلے‘‘ پالیسی کے تحت، وہ عالمی سطح پر کثیرالجہتی اداروں جیسے اقوام متحدہ، عالمی تجارتی تنظیم اور نیٹو کو نظرانداز کرتے ہوئے دوطرفہ مذاکرات کی طرف مائل ہیں، جس سے عالمی تعاون کے ڈھانچے میں کمی آ سکتی ہے۔
ماہرین کے مطابق، ٹرمپ کے فیصلے عالمی سطح پر امریکا کی پوزیشن کو متاثر کر سکتے ہیں، اور ان کے اقدامات کی وجہ سے دیگر طاقتوں کے اثر و رسوخ میں اضافہ ہو سکتا ہے، جس سے امریکا کی عالمی قیادت میں کمزوری آ سکتی ہے۔ ان کی پالیسیوں کا اثر خاص طور پر معاشی عدم مساوات، نسل پرستی، اور امیگریشن پر بھی پڑ سکتا ہے، جس سے امریکی معاشرتی تقسیم مزید بڑھ سکتی ہے۔
ٹرمپ کا عالمی امور میں فعال کردار اور ان کی خارجہ پالیسیوں کا اثر آنے والے برسوں میں واضح ہو گا، جس سے یہ معلوم ہو سکے گا کہ ان کی ’’America First‘‘ پالیسی دنیا کے لیے کس حد تک مفید ثابت ہوتی ہے یا پھر یہ عالمی سطح پر انتشار کا سبب بنتی ہے۔