آسٹریلیا میں ایلزبتھ سٹرہس کی موت کا کیس ایک دل دہلا دینے والا واقعہ ہے جس میں ایک آٹھ سالہ بچی کو جان سے مارنے کے جرم میں اس کے والدین اور مذہبی گروپ کے 14 ارکان کو مجرم قرار دیا گیا ہے۔ اس کیس میں ایک مذہبی عقیدہ نے ایک بچی کی زندگی چھین لی، جہاں اس گروہ نے ایلزبتھ کا طبی علاج روک دیا اور اسے انسولین سے محروم رکھا، کیونکہ ان کا ماننا تھا کہ خدا ہی شفا دے گا۔
[the_ad id=”1104″]
یہ کیس اس بات کا غماز ہے کہ جب مذہبی عقائد انسانی زندگی اور صحت کے بنیادی حقوق سے متصادم ہو جاتے ہیں تو اس کے سنگین نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔ ایلزبتھ کو طبی دیکھ بھال کی ضرورت تھی، لیکن مذہبی عقیدے کی وجہ سے اس کی صحت کی حالت دن بہ دن بگڑتی گئی، جس کے نتیجے میں اس کی موت واقع ہوئی۔
عدالت نے اس کیس میں ان تمام افراد کو مجرم قرار دیا جنہوں نے ایلزبتھ کی زندگی کی حفاظت کے لیے مناسب اقدامات نہیں کیے۔ جیسن سٹرہس، ایلزبتھ کے والد، نے اس دوران بتایا کہ انہیں یقین تھا کہ ایلزبتھ دوبارہ زندہ ہو جائے گی، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مذہبی عقیدے اور حقیقت کے درمیان فاصلہ ان کی سمجھ میں کسی بھی حقیقی احتیاط سے زیادہ تھا۔
یہ مقدمہ نہ صرف اس بات کی یاد دہانی ہے کہ ہمیں اپنے بچوں کی حفاظت کے لیے حقیقت پسندانہ اور سائنسی بنیادوں پر فیصلے کرنے کی ضرورت ہے، بلکہ یہ ایک کٹھن سوال بھی اٹھاتا ہے کہ جب مذہبی آزادی اور انسانی حقوق کا ٹکراؤ ہوتا ہے، تو کس کی حفاظت کی جائے؟