قطر کے وزیرِ اعظم شیخ محمد بن عبدالرحمان التھانی اور امریکی صدر جو بائیڈن نے قطر میں پریس کانفرنس کے دوران تصدیق کی کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان یرغمالیوں کے تبادلے اور جنگ بندی کا معاہدہ طے پا گیا ہے۔ اس معاہدے میں مکمل جنگ بندی، اسرائیلی فوجوں کا غزہ سے انخلا، حماس کی جانب سے یرغمالیوں کی رہائی اور اسرائیل کی جانب سے فلسطینی قیدیوں کی رہائی شامل ہے۔ یہ معاہدہ 15 ماہ کی خونریز جنگ کے بعد آیا ہے، جس کے دوران غزہ میں 46,640 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
7 اکتوبر 2023 کو حماس نے اسرائیل پر حملہ کیا، جس کے نتیجے میں 1200 اسرائیلی ہلاک اور 251 افراد کو یرغمال بنایا گیا۔ یہ حملہ اتنا منصوبہ بند اور وسیع تھا کہ اس نے اسرائیلی دفاعی نظام کو چیلنج کیا۔ حماس نے اس حملے کی ابتدا صبح سویرے کی تھی جب اسرائیل میں زیادہ تر لوگ سوتے ہوئے تھے۔ حماس نے ہزاروں راکٹ داغے، جنہیں اسرائیل کا ’آئرن ڈوم‘ دفاعی نظام بھی روکنے میں ناکام رہا۔ حماس کا دعویٰ ہے کہ اس نے پانچ ہزار راکٹ داغے، جب کہ اسرائیل کے مطابق اس کی تعداد کم تھی۔
حملے کی شدت اس بات سے ظاہر ہوتی ہے کہ حماس نے اسرائیل کی سرحدوں کو عبور کرنے کے لیے مختلف طریقے استعمال کیے، جیسے فضائی گلائیڈرز اور کشتیوں کا استعمال۔ اسرائیل کے دفاعی نظام اور سرحدی رکاوٹوں کو چند گھنٹوں میں عبور کر کے حماس کے جنگجو اسرائیل کے اندر داخل ہوگئے اور مختلف مقامات پر حملے کیے۔
اس حملے کے دوران حماس کے جنگجوؤں نے اسرائیل کے مختلف شہروں میں 27 مقامات پر حملہ کیا اور عام شہریوں کو یرغمال بنایا۔ اسرائیل کے فوجی اور عام شہری دونوں یرغمال بنے اور بعض کو غزہ لے جایا گیا۔ یہ حملہ اس بات کا غماز تھا کہ حماس نے اپنے منصوبے کو انتہائی مؤثر طریقے سے عملی جامہ پہنایا تھا، جس کی تیزی اور شدت نے اسرائیل کو حیرت میں ڈال دیا۔
یہ حملہ اسرائیل کی فوجی حکمت عملی اور دفاعی تیاریوں پر ایک بڑا سوالیہ نشان ہے، اور اس کا اثر طویل عرصے تک خطے کی صورتحال پر پڑے گا۔