یہ وارداتیں بہت پیچیدہ اور ماہر انداز میں کی جاتی ہیں، جس کی وجہ سے متاثرہ افراد کو ان کا علم تک نہیں ہوتا۔ ایس ایس پی آئی ایس یو شعیب میمن کے مطابق، ملزمان کی یہ حکمت عملی خاص طور پر تنخواہ والے دنوں میں مؤثر ثابت ہوتی ہے جب لوگوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے اور وہ اے ٹی ایمز استعمال کر رہے ہوتے ہیں۔
یہ ملزمان ایک خاص قسم کی ڈیوائس یا جیمرز کا استعمال کرتے ہیں جو اے ٹی ایم کے سگنلز کو وقتی طور پر روک دیتے ہیں، اس کے بعد جب صارف اپنا اے ٹی ایم کارڈ ڈالتا ہے، تو وہ کارڈ پھنس کر رہ جاتا ہے۔ پھر ملزم اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے، صارف کو باتوں میں لگا کر اور بہانہ بنا کر اندر داخل ہوتا ہے۔ اس کے بعد وہ اس کا پن کوڈ چوری کرنے کے بعد، ایک خاتون کے ذریعے صارف کو مشغول رکھتے ہیں تاکہ کسی کو شک نہ ہو۔
اس دوران، ملزم اصل میں صارف کا کارڈ تبدیل کر لیتا ہے، اور بعد میں اس کارڈ کو استعمال کرتے ہوئے چوری کی وارداتیں کرتا ہے۔
ایسی وارداتوں سے بچنے کے لیے، ایس ایس پی شعیب میمن نے کچھ اہم مشورے دیے ہیں جن میں یہ شامل ہیں کہ:
- اپنے پن کوڈ کو راز رکھیں اور کسی کو بھی اسے دکھانے سے گریز کریں۔
- اے ٹی ایم مشین استعمال کرتے وقت محتاط رہیں، اگر مشین میں کسی قسم کی غیر معمولی چیز نظر آئے تو فوراً اس کا استعمال بند کر دیں۔
- مشکوک افراد سے دور رہیں اور کسی کو بھی اپنی ٹرانزیکشن کے دوران اپنی موجودگی سے آگاہ نہ کریں۔
- دوسروں کے ساتھ تعاون کرنے سے پہلے اپنی شناخت کی تصدیق کریں، تاکہ کسی بھی دھوکہ دہی سے بچا جا سکے۔
اس قسم کی وارداتوں سے آگاہی اور احتیاطی تدابیر اختیار کرنے سے صارفین اپنے مالی تحفظ کو یقینی بنا سکتے ہیں۔