بھارتی ریاست بہار میں ناتھونی پال کے حوالے سے یہ واقعہ ایک حیرت انگیز اور پیچیدہ حقیقت کا پتا دیتا ہے، جس میں ایک شخص 17 سال تک مقتول سمجھا گیا، لیکن دراصل وہ زندہ تھا۔ ناتھونی پال 2009 یا اس سے پہلے اپنے گاؤں سے لاپتہ ہوئے تھے، اور ان کے قتل کا مقدمہ ان کے ہی خاندان کے افراد کے خلاف درج کیا گیا تھا۔ پولیس نے اس مقدمے میں ان کے چچا اور تین بھائیوں کو جیل بھیج دیا اور ناتھونی کو مردہ سمجھا۔
حالانکہ ناتھونی نے اپنی شناخت ظاہر کی اور بتایا کہ وہ جھانسی میں اکیلا رہتے ہیں اور ان کا اپنے گاؤں سے تقریباً 16 سال قبل رابطہ ٹوٹ چکا تھا، لیکن ان کی گمشدگی اور قتل کی کہانی نے ایک پیچیدہ صورت حال پیدا کر دی تھی۔ ان کے بھائی ستیندر پال اور ان کے دیگر دو بھائیوں نے آٹھ آٹھ مہینے جیل میں گزارے حالانکہ وہ بے گناہ تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کے بھائی کا نام ایف آئی آر میں شامل تھا مگر بعد میں درخواست کرنے پر اسے نکال دیا گیا تھا۔
جب ستیندر پال نے اپنے بھائی ناتھونی کو زندہ دیکھا تو ان کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور انہوں نے اس سنگین غلط فہمی کے بعد اپنے آپ کو بے گناہ قرار دیا۔ اس واقعے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ کبھی کبھار سچائی اتنی پیچیدہ اور چھپی ہوئی ہوتی ہے کہ کئی سالوں تک سامنے نہیں آتی، اور ایک غلط فہمی کی وجہ سے بے گناہ افراد کی زندگیوں پر اثرات پڑ سکتے ہیں۔
اب ناتھونی پال کو مزید تفتیش کے لیے بہار پولیس کے حوالے کر دیا گیا ہے تاکہ اس معاملے کی حقیقت کو واضح کیا جا سکے۔ یہ واقعہ انصاف کے عمل میں پیچیدگیاں اور اس کی اہمیت کو بھی اجاگر کرتا ہے۔