یہ کہانی ہمارے معاشرتی اور اقتصادی نظام کی حقیقتوں کو واضح کرتی ہے، جہاں بے روزگاری، جبری مشقت، اور غیر محفوظ ملازمتیں لوگوں کو غیر قانونی اور خطرناک راستوں پر جانے کے لیے مجبور کرتی ہیں۔ رب نواز جیسے نوجوانوں کا خواب ایک بہتر مستقبل کا ہے، لیکن اس سفر میں وہ جو خطرات برداشت کرتے ہیں، ان کا پتا بھی نہیں چلتا۔ ان کے دلوں میں یورپ اور دیگر ممالک میں ایک بہتر زندگی کا خواب ہوتا ہے، جہاں ان کی محنت کو سراہا جائے گا اور انہیں مناسب اجرت اور تحفظ ملے گا۔
پاکستان میں تعلیم اور ہنر کے فقدان کی وجہ سے نوجوانوں کو مناسب ملازمتیں نہیں ملتیں، جس کے نتیجے میں وہ غیر قانونی راستوں کو اختیار کرنے پر مجبور ہیں۔ انسانوں کی اسمگلنگ اور جبری مشقت کی صنعتوں میں ملوث افراد ان خوابوں کا استحصال کرتے ہیں اور انہیں جھوٹے وعدوں کے ساتھ ان خطرناک راستوں پر بھیج دیتے ہیں۔
پاکستانی نوجوانوں کی تعداد جو غیر قانونی طریقوں سے بیرون ملک جانے کی کوشش کرتے ہیں، دن بدن بڑھ رہی ہے، اور ان کا مقصد صرف ایک بہتر زندگی کا حصول ہوتا ہے۔ تاہم، یہ نوجوان اکثر اپنی زندگیوں کو خطرے میں ڈال کر، دریا کی بے رحم لہروں میں غرق ہوجاتے ہیں، جیسے کہ رب نواز کی کہانی میں ہوا۔
اس صورتحال کا ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ پاکستان میں قوانین اور ضوابط کی کمی کی وجہ سے جبری مشقت اور غیر محفوظ ورکنگ حالات پر قابو پانا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ آئی ایل او جیسے عالمی ادارے کوششیں کر رہے ہیں، مگر ان کی تاثیر کم ہے کیونکہ صوبوں میں ان قوانین پر عمل درآمد کرنے میں مشکلات پیش آتی ہیں۔
یورپ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں محنت کشوں کے حقوق اور سہولتیں بہتر ہیں، جس کی وجہ سے پاکستانی نوجوان وہاں جانے کے لیے پرجوش ہیں۔ لیکن اس کا ایک سیاہ پہلو بھی ہے، جہاں اسمگلنگ اور غیر قانونی راستوں کے ذریعے جانے والے افراد اپنی زندگیوں کی قیمت چکاتے ہیں۔
آخرکار، سوال یہ ہے کہ پاکستان میں ایسے نوجوانوں کے لیے ایک بہتر اور محفوظ مستقبل کیسے فراہم کیا جا سکتا ہے؟ یہ ایک سنگین مسئلہ ہے جس پر حکومت اور معاشرتی سطح پر سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہے تاکہ اس کے حل کے لیے مناسب اقدامات کیے جا سکیں۔ جب تک معاشرتی عدم توازن اور بے روزگاری کے مسائل حل نہیں ہوتے، نوجوانوں کا غیر قانونی راستوں کا انتخاب کرنا کم نہیں ہوگا۔