گولان کی پہاڑیاں مشرقِ وسطیٰ کے ایک انتہائی اہم اور متنازعہ علاقے ہیں، جو شام اور اسرائیل کے درمیان سرحد کے قریب واقع ہیں۔ اس علاقے کی سٹریٹیجک، مذہبی، اور تاریخی اہمیت نے اسے کئی دہائیوں سے عالمی سطح پر متنازع رکھا ہے۔
سٹریٹیجک اہمیت:
- گولان کی پہاڑیاں اسرائیل کے دفاعی نقطہ نظر سے بہت اہم ہیں کیونکہ یہ خطہ اسرائیل کے شمالی سرحد پر واقع ہے اور اس سے اسرائیل کی سکیورٹی کو مستحکم کیا جاتا ہے۔ گولان کی بلندیوں سے اسرائیل کو ارد گرد کی زمینوں پر نظر رکھنے کا موقع ملتا ہے۔
- علاقے کی پانی کی فراہمی بھی اس کی اہمیت میں اضافہ کرتی ہے۔ گولان کی پہاڑیوں سے بہہ کر آنے والا بارش کا پانی دریائے اردن میں داخل ہوتا ہے، جو اسرائیل میں بحیرۂ طبریا کو پانی فراہم کرتا ہے۔ اس کے باعث اسرائیل کی زراعت اور پانی کی فراہمی اہمیت اختیار کر گئی ہے۔
مذہبی اور تاریخی اہمیت:
- گولان کی پہاڑیوں کو قدیم زمانوں میں بشان کے نام سے جانا جاتا تھا، اور یہ علاقے کئی تاریخی اور مذہبی حوالوں سے اہم ہیں۔ انجیل میں بشان کو ‘پناہ کے شہروں’ میں شامل کیا گیا تھا، جہاں قتلِ خطا کرنے والے افراد پناہ لے سکتے تھے۔
- تورات اور انجیل میں بشان اور گولان کی پہاڑیوں کا ذکر آتا ہے، خاص طور پر پیغمبر موسیٰ اور بنی اسرائیل کی فتح کے حوالے سے۔ اس علاقے میں بنی اسرائیل کے لیے جنگیں لڑی گئیں، جن میں بادشاہ اوگ کے ساتھ جنگ بھی شامل ہے، جو ایک طاقتور حکمران تھا۔
- گولان کی اہمیت کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ یہ اسرائیل کے لیے ایک زرخیز اور پانی کی فراہمی کا ذریعہ ہے، جس سے نہ صرف اسرائیل کی زراعت بلکہ اس کی معیشت بھی وابستہ ہے۔
سیاسی متنازعہ:
- گولان کی پہاڑیوں پر اسرائیل کا قبضہ 1967 کی جنگ کے بعد شروع ہوا اور اس کے بعد اسرائیل نے یہاں آبادکاری شروع کر دی۔ ان آبادکاریوں کو بین الاقوامی سطح پر غیر قانونی سمجھا جاتا ہے، تاہم اسرائیل اسے اپنے دفاع کے لیے ضروری قرار دیتا ہے۔
- اسرائیل نے 2019 میں امریکی حمایت سے گولان کو اپنا حصہ تسلیم کروا لیا، لیکن اقوامِ متحدہ اور دیگر ممالک اس علاقے کو شام کا حصہ مانتے ہیں اور اسرائیل کے قبضے کو غیر قانونی سمجھتے ہیں۔
- اس کے برعکس، شام گولان کی پہاڑیوں کو اپنی سرزمین قرار دیتا ہے اور بار بار اس علاقے کو واپس لینے کا عزم ظاہر کرتا ہے۔
موجودہ صورتحال:
- گولان کی پہاڑیوں پر اب اسرائیلی بستیاں موجود ہیں، جن میں تقریبا 20,000 اسرائیلی آباد ہیں۔ ان کے ساتھ تقریباً 20,000 شامی عرب بھی رہتے ہیں، جن میں زیادہ تر دروز فرقے سے تعلق رکھتے ہیں اور وہ 1967 کی جنگ کے دوران اس علاقے سے نہیں نکلے تھے۔
- اس علاقے میں کشیدگی کا سامنا ہے کیونکہ دونوں ممالک، اسرائیل اور شام، اس پر اپنے حقوق کا دعویٰ کرتے ہیں۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ گولان کی پہاڑیاں اس کی سکیورٹی کے لیے اہم ہیں، جبکہ شام اس علاقے کو واپس لینے کی مسلسل کوششوں میں ہے۔
گولان کی پہاڑیاں نہ صرف سٹریٹیجک اور مذہبی اعتبار سے اہم ہیں بلکہ اس علاقے کا مستقبل مشرقِ وسطیٰ کے سیاسی اور جغرافیائی تناظر میں اہمیت رکھتا ہے، اور اس پر جاری تنازعات کا اثر خطے کی سلامتی پر پڑتا ہے۔