ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا کیس پاکستان اور امریکہ کے درمیان ایک طویل اور پیچیدہ مسئلہ رہا ہے، اور حالیہ سماعت میں جسٹس اعجاز اسحاق خان کے ریمارکس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان میں اس معاملے پر بہت غصہ اور مایوسی پائی جاتی ہے۔ ان کا کہنا “امریکہ ہمیں ہماری اوقات دکھا رہا ہے” ایک گہرے سیاسی اور جذباتی ردعمل کا اظہار ہے، خاص طور پر اس وقت جب امریکی صدر جوبائیڈن نے اپنے بیٹے ہنٹر بائیڈن کی سزا معاف کر دی، مگر ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھایا۔
ڈاکٹر عافیہ صدیقی پر امریکہ میں دہشت گردی کے الزامات ہیں اور انھیں 86 سال قید کی سزا سنائی گئی، لیکن ان کے حامی ان الزامات کو مسترد کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ عافیہ کی گرفتاری اور سزا سیاسی نوعیت کی تھی۔ اس پر پاکستان میں ایک طویل عرصے سے ان کی رہائی کے لیے تحریک چل رہی ہے، جس کی قیادت ان کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کر رہی ہیں۔
عدالتی سماعت کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ امریکہ نے پاکستان کے ساتھ قیدیوں کی رہائی کے لیے معاہدہ کرنے سے انکار کر دیا ہے، اور اس کے ساتھ ہی وزارت خارجہ کی جانب سے اس کیس میں پاکستان کی پوزیشن پر سوالات اٹھائے گئے۔ پاکستان کی حکومت کی جانب سے عافیہ کی رہائی کے لیے کوششیں محدود رہی ہیں، اور ڈاکٹر فوزیہ نے خود کئی مرتبہ الزام عائد کیا کہ حکومت نے اس معاملے میں سنجیدگی سے اقدامات نہیں کیے۔
یہ معاملہ نہ صرف قانونی بلکہ سفارتی تعلقات کے لیے بھی ایک چیلنج ہے، کیونکہ اس کے اثرات پاکستان اور امریکہ کے تعلقات پر پڑتے ہیں۔ عدالت نے کیس کی مزید سماعت کے لیے دو ہفتے کا وقت دیا ہے، جس کے بعد اس کیس کی ترقی اور اس میں پاکستان کی حکومتی پوزیشن پر مزید وضاحت ملے گی۔
آپ کو کیا لگتا ہے، کیا پاکستان کی حکومت اس معاملے میں کوئی مؤثر قدم اٹھائے گی یا نہیں؟