یہ کہانی شمالی کوریا سے فرار ہونے والے ایک نوجوان، یو ہایوک کی ہے جو زندگی کی سختیوں سے نبرد آزما ہونے کے باوجود کامیاب ہونے کی امید رکھتا ہے۔ نو سال کی عمر میں جب اسے سڑک پر بھیک مانگنی پڑی، تو اس نے زندگی کے تلخ حقائق کو بخوبی محسوس کیا۔ ایک واقعہ میں، جب وہ ایک لنچ باکس میں چاول تلاش کر رہا تھا اور اس میں سرکہ اور بیکنگ سوڈا ملایا تھا، اس کے مالک نے اسے پکڑ کر مارا پیٹا۔ اس کے باوجود، ہایوک کا خواب کبھی ختم نہیں ہوا۔
ہایوک اور اس کے گروپ کے دیگر اراکین، جن میں شمالی کوریا کے کم سیوک بھی شامل ہیں، اب کے-پاپ گروپ ون ورس کا حصہ بننے جا رہے ہیں۔ یہ گروپ خاص طور پر شمالی کوریا کے منحرف افراد کی کہانیاں سنانے کے لیے بنایا گیا ہے، جس کا مقصد امریکی عوام کی توجہ حاصل کرنا ہے۔ گروپ کے اراکین کی کہانیاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ مشکلات کے باوجود، انسان خواب دیکھنے کی طاقت رکھتا ہے۔
ہایوک کی زندگی میں موسیقی ایک پناہ گاہ کی طرح تھی۔ شمالی کوریا میں رہتے ہوئے، جہاں جنوبی کوریا کی ثقافت پر پابندیاں تھیں اور موسیقی کی آزادی نہ تھی، وہ خفیہ طور پر اپنی کہانیاں لکھا کرتے تھے۔ جنوبی کوریا پہنچنے کے بعد، جہاں انہوں نے پہلی بار کے-پاپ سے گہرا تعلق محسوس کیا، ان کے لیے یہ نیا دنیا تھا، اور یہاں انہیں اپنے خوابوں کی تکمیل کی پہلی حقیقت سامنے آئی۔
موسیقی کی دنیا میں ان کا سفر آسان نہیں تھا۔ وہ ایک “خالی کینوس” کی طرح تھے جنہیں نئے ماحول میں ڈھالنے میں وقت لگا، لیکن ان کی محنت اور عزم نے انہیں کامیابی کے قریب پہنچایا۔ وہ اب اپنے تجربات کو دیگر افراد تک پہنچانے کے لیے محنت کر رہے ہیں تاکہ دوسروں کو بھی خواب دیکھنے کی ہمت ملے۔
ہایوک کا کہنا ہے کہ وہ شمالی کوریا کے حوالے سے اپنی رائے کا اظہار نہیں کرنا چاہتے، کیونکہ وہ اس سے منسلک ہونے کا نہیں چاہتے، لیکن ان کے لیے یہ سفر ایک ذاتی محنت اور قربانی کا حصہ بن چکا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر وہ کامیاب ہو گئے تو یہ دوسرے لوگوں کے لیے حوصلہ افزائی کا باعث بنے گا۔