وزیراعلیٰ تامل ناڈو ایم کے اسٹالن کا وادی سندھ کی قدیم تہذیب کے رسم الخط کو پڑھنے پر دس لاکھ ڈالر انعام کا اعلان ایک دلچسپ اور تاریخی اقدام ہے۔ ان کی یہ پیشکش ایک نیا سنگ میل ثابت ہو سکتی ہے جس کا مقصد وادی سندھ کے تہذیبی ورثے کو سمجھنا اور اس کے رازوں کو اجاگر کرنا ہے۔
حال ہی میں تامل ناڈو کے محکمہ آثار قدیمہ نے جو قدیم اشیاء دریافت کی ہیں، ان پر وادی سندھ کی تہذیب سے ملتے جلتے حروف و نشان کندہ ہیں، جس سے یہ قیاس کیا جا رہا ہے کہ یہ رسم الخط وادی سندھ کی تہذیب سے متعلق ہو سکتا ہے۔ اسٹالن کے مطابق، تامل ناڈو کے باشندے دراوڑوں کی نسل سے ہیں، جو وادی سندھ کے قدیم باشندے تھے، اور ان کا ماننا ہے کہ آریائی حملہ آوروں نے دراوڑوں پر ظلم و ستم کر کے انہیں جنوبی بھارت کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور کیا تھا۔
اسٹالن کا کہنا ہے کہ وہ تامل زبان کو وادی سندھ کے دراوڑوں کی بولی کی ترقی یافتہ شکل سمجھتے ہیں اور اس زبان کے اصل ماخذ کو جاننے کے لیے بے تاب ہیں۔ ان کے لیے یہ انعامی پیشکش تامل زبان اور وادی سندھ کی تہذیب کے درمیان تعلق کو سمجھنے میں اہمیت رکھتی ہے۔
ماہرین لسانیات اب تک وادی سندھ کے رسم الخط کو مکمل طور پر نہیں پڑھ پائے ہیں، اور مختلف نظریات موجود ہیں کہ آیا وادی سندھ میں کوئی رسم الخط تھا یا نہیں۔ کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ وہاں کوئی رسم الخط نہیں تھا، جبکہ دیگر کا کہنا ہے کہ یہ رسم الخط تھا لیکن وہ ابھی تک مکمل طور پر سمجھا نہیں جا سکا۔
اس اعلان کے ذریعے، اسٹالن نہ صرف اپنی ریاست کے ثقافتی ورثے کو اجاگر کر رہے ہیں بلکہ ایک بین الاقوامی سطح پر بھی وادی سندھ کی تہذیب اور اس کے زبان و رسم الخط کے متعلق مزید تحقیق و مطالعات کے لیے ایک اہم موقع فراہم کر رہے ہیں۔