پاکستان کے معروف گلوکار محمد اشرف عرف ملکو کا حالیہ معاملہ ایک دلچسپ اور پیچیدہ صورتحال کی عکاسی کرتا ہے جس میں ان کی موسیقی، سیاست اور ذاتی نظریات ایک ساتھ آپس میں جڑ گئے ہیں۔ ملکو کے لندن جانے کی کوشش کے دوران انہیں پی این آئی ایل (پرویزنل نیشنل آئیڈینٹیفکیشن لسٹ) میں شامل کیا گیا، جس کی وجہ سے ان کا سفر روکا گیا۔ تاہم، بعد ازاں ان کا نام اس فہرست سے نکال دیا گیا، جس سے ایک نئی بحث شروع ہو گئی۔
ملکو کے مطابق، ان کا نام اس فہرست میں گانے “نک دا کوکا” اور اس کے مختلف ورژن کے باعث آیا۔ اس گانے میں “قیدی 804” اور “اڈیالہ جیل” جیسے الفاظ استعمال کیے گئے تھے، جو بظاہر سابق وزیر اعظم عمران خان کی قید سے متعلق تھے۔ تاہم، ملکو نے ہمیشہ کہا کہ ان کے گانے کسی خاص سیاسی جماعت یا شخصیت کی حمایت میں نہیں تھے، بلکہ وہ عام طور پر قوم کے مسائل کو بیان کرتے ہیں۔
ایئرپورٹ پر ملکو کا کہنا تھا کہ انہیں ایف آئی اے نے بتایا کہ ان پر بیرون ملک سفر پر پابندی ہے، لیکن ان کا کہنا تھا کہ اس بارے میں ایئرپورٹ عملہ زیادہ معلومات فراہم کرنے کا مجاز نہیں تھا۔ بعد ازاں، جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ پی ٹی آئی کے جلسے میں شریک ہونے جا رہے تھے، تو انہوں نے واضح طور پر ان جلسوں سے لاتعلقی ظاہر کی اور کہا کہ وہ اپنے شوز میں پرفارم کرنے جا رہے تھے۔
ملکو نے اپنی نیت اور جذبات کی وضاحت کی اور کہا کہ ان کا گانا فوج کے بارے میں مثبت خیالات کا اظہار کرتا ہے، کیونکہ ان کے خاندان کے افراد فوج سے وابستہ رہے ہیں۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ان کا گانا کسی دباؤ کے بغیر تھا اور ان کی نیت پر شک نہیں کیا جانا چاہیے۔
اس صورتحال میں ایک اہم سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ آیا ملکو کو کسی قسم کا سیاسی دباؤ محسوس ہوا یا نہیں، خاص طور پر جب ان کے گانے کے مختلف ورژن عوام میں اتنی مقبولیت حاصل کر چکے تھے۔ لیکن ان کا کہنا تھا کہ ان کی موسیقی ہمیشہ عوامی پسند کی بنیاد پر ہے اور وہ اپنی ملک سے محبت اور احترام کا اظہار کرتے ہیں۔
اس ساری کہانی میں جو کچھ واضح ہے وہ یہ ہے کہ ملکو کی موسیقی نے ایک نیا سیاسی اور سماجی تناظر پیدا کیا ہے، جس میں وہ اپنے گانے کے ذریعے نہ صرف فن کا اظہار کر رہے ہیں بلکہ قوم کے مختلف طبقوں کے جذبات کی ترجمانی بھی کر رہے ہیں۔