یہ تحریر ایک دلچسپ یادوں اور تجربات کی عکاسی کرتی ہے جو ایک نسل کی زندگی کے مختلف لمحوں، تبدیلیوں، اور ثقافتی اثرات کو بیان کرتی ہے۔ مصنف نے اپنی نسل کی تاریخ کو مختلف سیاسی، سماجی، اور تفریحی واقعات کے ساتھ جوڑتے ہوئے ایک ذاتی سفر کی تصویر پیش کی ہے۔
اس تحریر میں مخصوص سیاسی ادوار جیسے بھٹو کی پھانسی، ضیاءالحق کا دور، بےنظیر کی موت، اور عمران خان کے دھرنے کے حوالے سے نسلوں کی یادوں کی بات کی گئی ہے۔ ہر نسل کے افراد نے مختلف سیاسی اور سماجی تبدیلیوں کو اپنے انداز میں محسوس کیا، اور ان یادوں کا ان کی زندگی پر گہرا اثر رہا۔
فلموں کا ذکر بھی ایک اہم جزو ہے۔ یہاں تک کہ ٹی وی اور سینما کے بارے میں گھر والوں کی پابندیوں کا ذکر کیا گیا ہے، اور ان پابندیوں کو توڑ کر سینما کا تجربہ حاصل کرنے کی ایک نئی دنیا کا تصور پیش کیا گیا ہے۔ سینما میں دیکھے جانے والے پوسٹرز اور فلموں کے ٹریلر، جن میں خاص طور پر پنجابی، پشتو اور اردو فلموں کے مخصوص موضوعات اور ان کے جاندار کرداروں کا ذکر کیا گیا ہے، ایک مخصوص عہد کی گواہی دیتے ہیں۔
یہ تحریر نہ صرف ذاتی یادوں کو بیان کرتی ہے بلکہ پاکستانی معاشرتی اور ثقافتی پس منظر کو بھی اجاگر کرتی ہے۔ عمر علی خان کی کتاب اور سعد خان کا “خجستان” آن لائن عجائب خانہ ان فلموں، اشتہارات، اور دیگر ثقافتی مواد کو محفوظ کرنے کی کوششیں ہیں جو اس عہد کی نشاندہی کرتی ہیں۔ ان فلموں میں سیاست، جہاد، اور مغربی تہذیب کا تذکرہ ہے، جو ایک مخصوص طبقے کے خوابوں اور خوفوں کی عکاسی کرتی ہیں۔
آخر میں، یہ تحریر اس بات پر زور دیتی ہے کہ جو گناہ ایک نسل کرتی ہے، وہ آنے والی نسلوں کے لیے ایک نئے تجربے اور تفہیم کا دروازہ کھولتا ہے۔ اس کتاب اور یادوں کے ذریعے، ماضی کی کہانیاں ایک نئی نسل کے سامنے آتی ہیں جو ان پر اپنی نظر سے نظر ڈالتی ہے اور انہیں سمجھنے کی کوشش کرتی ہے۔