محمود غزنوی کے سومناتھ پر حملے اور اس کے نتائج برصغیر کی تاریخ میں ایک اہم باب ہیں۔ یہ واقعہ نہ صرف فوجی مہم کا حصہ تھا بلکہ اس کا اثر برصغیر کے مذہبی اور ثقافتی منظرنامے پر بھی گہرا رہا۔
سومناتھ کا مندر:
سومناتھ کا مندر اپنی شان و شوکت اور مذہبی اہمیت کے لیے مشہور تھا۔ گجرات کے ساحل پر واقع یہ مندر شیو پرستوں کا مقدس مقام تھا اور اس کے اندر رکھی سونے کی شیولنگ اور جواہرات سے آراستہ مورتیاں اس کی عظمت کا مظہر تھیں۔ مندر کی عمارت میں سونے کے گنبد، قیمتی پتھروں سے سجے ستون اور دیگر سجاوٹیں تھیں، جنہیں دیکھ کر دنیا بھر سے یاتری یہاں آتے تھے۔
محمود غزنوی کا حملہ:
محمود غزنوی نے 1025 میں سومناتھ پر حملہ کیا۔ یہ حملہ اس وقت کے مذہبی، سیاسی اور اقتصادی منظرنامے کا حصہ تھا جب سلطنت غزنوی کے عروج کا وقت تھا۔ تاریخ کے مطابق، محمود نے 30,000 گھڑ سواروں اور 54,000 غلاموں کے ساتھ اس مندر پر حملہ کیا۔ اس حملے کے دوران مندر کو تباہ کیا گیا اور وہاں موجود خزانہ لوٹ لیا گیا۔
تاریخی اثرات:
- لوٹ مار: سومناتھ کے خزانے کی لوٹ مار نے ایک اہم اقتصادی اور سیاسی پیغام دیا۔ محمود غزنوی کی فوج نے سونے، چاندی، جواہرات اور قیمتی سامان کو غزنی لے جایا۔
- جانی نقصان: حملے کے دوران ہزاروں ہندوؤں نے اپنی جانیں گئیں، جن میں یاتریوں کی بڑی تعداد بھی شامل تھی۔
- مذہبی مخالفت: اس حملے نے ہندو مسلم تعلقات کو ایک نیا موڑ دیا، اور کئی سالوں تک یہ واقعہ دونوں قوموں کے درمیان تنازع کا باعث بنا۔
نتیجہ:
محمود غزنوی کا سومناتھ پر حملہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ اس دور میں طاقتور سلطنتیں اپنے سیاسی و اقتصادی مفادات کے لیے جنگوں کا سہارا لیتی تھیں۔ سومناتھ کا تباہ ہونا اور اس سے حاصل ہونے والی دولت نے نہ صرف محمود کی سلطنت کو مستحکم کیا بلکہ اس نے ایک نیا عہد بھی شروع کیا، جس میں شمالی ہندوستان کی مسلم فتوحات کا آغاز ہوا۔
اس حملے کی تاریخ آج بھی مختلف زاویوں سے تجزیہ کی جاتی ہے اور یہ برصغیر کے تاریخی و ثقافتی تناظر میں ایک اہم مقام رکھتا ہے۔