…مختلف تجربات کر چکا ہے بلکہ 5000 کلومیٹر یا اس سے زیادہ فاصلے تک مار کرنے والے بین البراعظمی بیلسٹک میزائل (ICBM) جیسے “اگنی V” کا کامیاب تجربہ بھی کیا ہے، جو چین سمیت دیگر ممالک کو ہدف بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔‘
امریکی تشویش کے پس پردہ عوامل
ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکہ کی جانب سے پاکستان پر پابندیوں اور اس کے میزائل پروگرام سے متعلق خدشات کی وجوہات بنیادی طور پر تزویراتی، سیاسی اور اقتصادی ہیں:
- تزویراتی عوامل:
پاکستان کے ابابیل جیسے میزائل سسٹم، جن میں ایم آر وی یا ایم آئی آر وی ٹیکنالوجی شامل ہے، بھارتی میزائل ڈیفنس سسٹم کو بے اثر کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ امریکہ کو خدشہ ہے کہ یہ ٹیکنالوجی خطے میں اسلحے کی دوڑ کو مزید بڑھا سکتی ہے، خاص طور پر بھارت اور چین کے تناظر میں۔ - سیاسی عوامل:
امریکی پالیسی میں بھارت کے ساتھ تزویراتی شراکت داری کو فوقیت دی جا رہی ہے، جس کا مقصد چین کے اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنا ہے۔ پاکستان پر پابندیاں، بھارت کے میزائل پروگرام کو بالواسطہ فائدہ پہنچاتی ہیں۔ - اقتصادی عوامل:
امریکہ اور یورپی ممالک پاکستان کی معاشی ضروریات (آئی ایم ایف کے قرضے، برآمدات) کو بھی اپنی خارجہ پالیسی کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اس تناظر میں پابندیاں ایک دباؤ ڈالنے کا ذریعہ ہو سکتی ہیں تاکہ پاکستان اپنی دفاعی صلاحیتوں کو محدود کرے۔
ممکنہ اثرات
پاکستان کے میزائل پروگرام پر امریکی پابندیوں کے اثرات درج ذیل ہو سکتے ہیں:
- سازوسامان کی دستیابی میں مشکلات:
میزائل بنانے میں استعمال ہونے والے اہم اجزاء اور ٹیکنالوجی کی رسائی محدود ہو سکتی ہے، جس سے ترقی کی رفتار متاثر ہوگی۔ - تزویراتی تعلقات پر اثرات:
چین جیسے ممالک پاکستان کی تکنیکی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اپنی معاونت بڑھا سکتے ہیں، جس سے خطے میں طاقت کا توازن مزید پیچیدہ ہو سکتا ہے۔ - عالمی سطح پر تاثر:
پاکستان کی دفاعی صلاحیتوں کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کیے جا سکتے ہیں، جو سفارتی سطح پر مشکلات کا باعث بن سکتے ہیں۔
پاکستان کا موقف
پاکستان کا کہنا ہے کہ اس کے میزائل پروگرام کا مقصد خطے میں توازن قائم رکھنا ہے اور یہ دفاعی نوعیت کا ہے، جو بھارت کی بڑھتی ہوئی فوجی صلاحیتوں کے مقابلے میں ناگزیر ہے۔ دفترِ خارجہ کا کہنا ہے کہ امریکی پابندیاں تعصب پر مبنی ہیں اور خطے کے امن و استحکام کے لیے نقصان دہ ہو سکتی ہیں۔
ماہرین کا مشورہ
ماہرین تجویز کرتے ہیں کہ پاکستان کو اپنی دفاعی پالیسی میں شفافیت لانی چاہیے اور بین الاقوامی برادری کے ساتھ اپنے عزائم کی وضاحت کرنی چاہیے۔ ساتھ ہی، خطے میں اسلحے کی دوڑ کو روکنے کے لیے بھارت کے ساتھ بات چیت اور مذاکرات کو ترجیح دینا ہوگی۔
یہ مسئلہ جنوبی ایشیا میں تزویراتی استحکام کے لیے اہمیت رکھتا ہے اور اس کے اثرات عالمی سطح پر محسوس کیے جا سکتے ہیں۔