چین کی موجودہ اقتصادی صورتحال اور اس کے اثرات پر مبنی یہ مضمون ایک حقیقت پر مبنی عکس پیش کرتا ہے جہاں اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کو مناسب نوکریوں کے حصول میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ چین میں معاشی جمود اور بے روزگاری کی بڑھتی ہوئی شرح کے ساتھ، نوجوانوں کے لیے اپنی تعلیم اور مہارت کے مطابق ملازمتیں حاصل کرنا مشکل ہو چکا ہے۔ بہت سے گریجویٹس کو ایسی نوکریاں کرنا پڑ رہی ہیں جو ان کے تعلیمی معیار سے میل نہیں کھاتیں۔
مثال کے طور پر، سُن ژان جیسے نوجوان جنہوں نے فنانس میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی، اب ایک ریستوران میں ویٹر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ ان کا خواب تھا کہ وہ انویسٹمنٹ بینکنگ میں کام کریں گے، لیکن حقیقت نے ان کی توقعات کو ٹوٹنے دیا۔ اسی طرح، وو ڈان نے فنانس میں گریجویشن کی تھی مگر اب وہ سپورٹس انجری مساج کلینک میں کام کر رہی ہیں۔ ان کی کہانی چین کے نوجوانوں کے لیے ایک غمگین حقیقت پیش کرتی ہے جہاں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے باوجود ان کے سامنے روزگار کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں۔
یہ صورتحال چین کی معیشت میں ساختی تبدیلیوں اور مختلف صنعتوں میں جمود کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے، جس کا اثر گریجویٹس پر پڑا ہے۔ پروفیسر ژانگ جن اس بات کو تسلیم کرتی ہیں کہ نوجوانوں کو اپنے کیریئر کے حوالے سے روایتی تصورات کو دوبارہ ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ، بہت سے نوجوان اب فلم اور ٹی وی انڈسٹری کی طرف بھی رجوع کر رہے ہیں، جہاں وہ عارضی طور پر اضافی کردار ادا کر کے روزگار حاصل کر رہے ہیں۔
اس مضمون میں نوجوانوں کی یہ کہانیاں ان کی موجودہ معاشی پریشانیوں اور آنے والے امکانات کے بارے میں عدم یقین کو ظاہر کرتی ہیں، اور یہ چین کی معیشت میں نوجوانوں کے لیے ایک سنگین چیلنج کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔