کراچی میں معروف دوا ساز کمپنیوں کی جعلی دواؤں کا انکشاف ایک سنجیدہ مسئلہ بن چکا ہے جس نے نہ صرف صارفین کی صحت کو خطرے میں ڈالا ہے بلکہ دوا سازی کی صنعت کی ساکھ کو بھی متاثر کیا ہے۔ اے آر وائی نیوز کی رپورٹ کے مطابق، ڈرگ انسپکٹرز نے کراچی کے مختلف علاقوں میں چھاپے مار کر بڑی تعداد میں جعلی دوائیں برآمد کی ہیں جنہیں بازار میں کھلے عام فروخت کیا جا رہا تھا۔ یہ دوائیں معروف فارماسیوٹیکل کمپنیوں کے نام سے فروخت کی جا رہی تھیں، اور ان کا مقصد صارفین کو دھوکہ دینا تھا۔
ڈرگ انسپکٹرز نے جن دواؤں کو ضبط کیا، وہ ڈرگ ٹیسٹنگ لیبارٹری میں تجزیے کے بعد جعلی قرار پائی ہیں۔ ان دواؤں میں نیبرول فورٹ بیج ڈی بی 0982، آیو ڈیکس ایچ آئی اے اے سی، اور فینوبار بیج کیو اے 008 شامل ہیں، جنہیں مارکیٹ میں بغیر کسی پابندی کے فروخت کیا جا رہا تھا۔ یہ دوا ایک فارماسیوٹیکل کمپنی کے جعلی بیجز کے ساتھ پیکیج کی گئی تھیں، جنہوں نے ان دواؤں سے لاتعلقی ظاہر کر دی ہے۔
ڈرگ ٹیسٹنگ لیبارٹری کے سربراہ نے شہریوں سے اپیل کی ہے کہ وہ اس نوعیت کی جعلی دوائیں نہ خریدیں کیونکہ یہ دوا افراد کی صحت کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہیں۔ انہوں نے واضح طور پر کہا کہ یہ دوائیں کسی طرح کی تصدیق شدہ فارماسیوٹیکل کمپنی کی نہیں ہیں اور ان میں کوئی معیار نہیں ہے۔ مزید یہ کہ جعلی دواؤں کی موجودگی اس بات کا اشارہ ہے کہ مارکیٹ میں غیر معیاری اور خطرناک مصنوعات کی خرید و فروخت کی جا رہی ہے جو صارفین کی زندگیوں کے لیے بہت زیادہ خطرہ ہو سکتی ہیں۔
ڈرگ ٹیسٹنگ لیبارٹری کے سربراہ نے یہ بھی کہا کہ اس واقعہ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ شہریوں کو صرف رجسٹرڈ اور معروف فارمیسیوں سے ہی دوائیں خریدنی چاہئیں تاکہ وہ صحت کے مسائل سے بچ سکیں۔ اس کے علاوہ، انہوں نے عوام کو آگاہ کیا کہ ایسی دوائیں نہ خریدیں جو مشکوک یا غیر تسلیم شدہ ذرائع سے آ رہی ہوں۔
کراچی میں یہ جعلی دوا اسکینڈل ایک سنگین مسئلہ ہے اور اس کے خلاف کارروائی کی ضرورت ہے تاکہ لوگوں کی زندگیوں کے ساتھ کھیلنے والے عناصر کو سزا دی جا سکے۔ اس کے علاوہ، حکومت اور متعلقہ اداروں کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ مارکیٹ میں غیر معیاری دواؤں کی فروخت کو روکنے کے لیے سخت اقدامات کریں اور ان کمپنیوں اور افراد کے خلاف قانونی کارروائی کریں جو عوامی صحت کے لیے خطرہ بن رہے ہیں۔
چند دیگر اشارے جو اس سلسلے میں اہم ہیں، وہ یہ ہیں کہ عوام کو ادویات کے بارے میں آگاہی فراہم کرنا ضروری ہے تاکہ وہ جعلی مصنوعات سے بچ سکیں۔ اس کے علاوہ، دواساز کمپنیاں اور فارمیسیوں کو اپنے معیار کو یقینی بنانے کے لیے سختی سے معیار پر عمل درآمد کرنا ہوگا تاکہ ایسی صورتحال دوبارہ نہ پیدا ہو۔