کراچی کی این ای ڈی یونیورسٹی کی طالبہ صبوحی عارف نے ٹیکسٹائل انڈسٹری کے لیے ایک انقلابی اختراع متعارف کروا کر پاکستان کا نام روشن کیا ہے۔ انہوں نے اے آئی (مصنوعی ذہانت) ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے رئیل ٹائم فیبرک کوالٹی انسپیکشن سسٹم تیار کیا ہے، جس سے کپڑے کی تیاری کے دوران اس کے معیار اور نقائص کی فوری نشاندہی ممکن ہو جاتی ہے۔
صبوحی عارف کی یہ ایجاد نہ صرف ٹیکسٹائل انڈسٹری میں سالانہ کروڑوں روپے کے ضیاع کو کم کرے گی، بلکہ برآمدات کے دوران مصنوعات کے مسترد ہونے کے خطرات کو بھی کم کر دے گی۔ اس سسٹم کی مدد سے مینوفیکچرنگ لائن پر نصب کی جانے والی ہائی اسپیڈ سینسرز اور کیمروں کی مدد سے چند سیکنڈز میں کپڑے میں موجود خامیوں کا پتا چلتا ہے، جس سے پیدا ہونے والے نقصانات میں کمی آتی ہے اور انڈسٹری کا منافع بڑھتا ہے۔
ٹیکسٹائل انجینئر عمر قریشی نے اس منصوبے کی اہمیت پر روشنی ڈالی اور کہا کہ اس شعبے میں مسئلہ بہت سنگین تھا کیونکہ مینوفیکچرنگ فالٹس کو بروقت پکڑنا مشکل تھا۔ انہوں نے مزید بتایا کہ بیرون ملک استعمال ہونے والی مشینری پر بہت زیادہ لاگت آتی ہے، لیکن ان کا تیار کردہ سسٹم کم اخراجات پر بہت مؤثر ثابت ہو سکتا ہے۔
صبوحی عارف کا یہ کارنامہ ٹیکسٹائل انڈسٹری میں ایک اہم قدم ثابت ہو گا اور اس سے پاکستان کی معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔