یہ واقعہ انتہائی افسوسناک اور دل دہلا دینے والا ہے، اور یہ ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے کہ کس طرح نوجوانوں کو بہتر مستقبل کے خواب دکھا کر ان کی زندگیاں خطرے میں ڈالی جا رہی ہیں۔ “ڈنکی” کے ذریعے غیر قانونی طور پر یورپ جانے کا رجحان بڑھ رہا ہے، اور اس کی سنگینی اس بات سے واضح ہوتی ہے کہ اس کے نتیجے میں متعدد پاکستانی نوجوان اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔
پاکستان میں انسانی اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے قوانین موجود ہیں، لیکن ان کے نفاذ میں بڑی خامیاں ہیں۔ ایف آئی اے کی کارروائیاں اور گرفتاریوں کے باوجود زیادہ تر مجرموں کو سزا نہیں ملتی یا ان پر عملدرآمد نہیں ہوتا، جس سے یہ جرم جاری رہتا ہے۔ اس کے علاوہ، حکومتی اداروں کی طرف سے مناسب اقدامات اور جانچ پڑتال کا فقدان اس مسئلے کی شدت کو بڑھا رہا ہے۔
اس صورتحال کا ایک اور تشویشناک پہلو یہ ہے کہ سوشل میڈیا جیسے پلیٹ فارمز پر “ڈنکی” کے ذریعے یورپ جانے کی کامیاب کہانیاں دکھا کر مزید افراد کو اس غیر قانونی راستے پر چلنے کے لیے ترغیب دی جاتی ہے۔ اس کے اثرات اس قدر گہرے ہو چکے ہیں کہ یہ تقریباً ایک ثقافت یا روایت بن گئی ہے، خاص طور پر پنجاب کے کچھ علاقوں میں۔
کیا آپ کو لگتا ہے کہ اس مسئلے کا حل صرف سخت قوانین میں ہے یا اس کے لیے معاشرتی سطح پر آگاہی اور حکومت کی جانب سے بہتر اقدامات کی ضرورت ہے؟